Source: Unsplash.com


اگرچہ بادشاہ جہانگیر نے کشمیر کے حوالے سے لکھا تھا:-

''اگر فردوس بروئے زمیں است ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است''

مگر اس جنت میں رہنے والے لوگ بھی کئی امراض میں آئے دن مبتلا ہو رہے ہیں_پھر چاہے وہ ''دل کے امراض'' ہوں یا ''پھیپھڑوں کے امراض'' ان مہلک بیماریوں کا تعلق براہ راست منشیات اور نشیلی ادویات سے ہے۔ یہ بات کافی دکھ کے ساتھ کہنے پر ہی ہے کہ منشیات کے کاروبار اور استعمال کرنے میں نہ صرف ہمارے بزرگ لوگ ملوث ہیں، بلکہ اس میں وادی کشمیر کا نوجوان طبقہ بھی شامل ہے۔

آئے دن اگرچہ منشیات کے نقصانات کے حوالے سے مختلف مجالس اور پروگراموں کا انعقاد کیا جارہا ہے، مگر زمینی سطح پر اس کا کوئی خاص اثر دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔ بلکہ ہمارے سماج کی اصل حقیقت تو یہ ہے کہ جو لوگ منشیات کے نقصانات کے حوالے سے مجالس کا انعقاد کرتے ہیں۔ان میں بھی کافی لوگوں کو نشیلی ادویات اور منشیات کے جال نے گھیر لیا ہے پھر چاہے وہ ہمارے مذہبی رہنما ہو یا سیاسی لیڈران۔

اس بات میں کوئی دہرایا نہیں ہے کہ قوم کا مستقبل نوجوانوں کے کندھوں پہ ہے، مگر اگر وادی کشمیر کے نوجوان اسی طرح سے ان چیزوں کا کاروبار اور استعمال کرتے رہے، تو پھر وہ دن دور نہیں جب ہمیں ملک کے دیگر ریاستوں کی طرح نوجوانوں کو گلی اور کوچوں سے بے ہوشی کی حالت میں اٹھانا پڑ رہا ہوگا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہمارے قوم کے والدین حضرات بھی بلاججھک اپنے نونہالوں کے سامنے نشیلی چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کافی حد تک ہمارے نونہال بھی نشیلی چیزوں کی طرف راغب ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

'' سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا''

اگر منشیات کے کاروبار اور استعمال کرنے کی بات کی جائے تو یہاں پہ صرف بات مرد حضرات پر ختم نہیں ہوتی ہے، بلکہ یہاں پہ یہ بات بھی میرے ذہن کو اندر ہی اندر پریشان کرتی جا رہی ہے، کہ اب ان بے ہودہ اور فضول کاموں میں ہمارے سماج کی خواتین بھی شامل ہے ۔کچھ دن پہلے ہی سوشل میڈیا کے ذریعے ایک خبر گردش کر رہی تھیں جس میں یہ لکھا تھا کہ ''کچھ کشمیری خواتین سے پولیس نے منشیات برآمد کی۔''

کیا یہ بات غور و فکر کرنے کے لائق نہیں ہے۔ ایک ایسی ماں یا ایک ایسی بہن جو خود منشیات کے کاروبار سے جڑی ہے وہ اپنے بچوں کو کیا صحبت دے گی اس کے ہاتھوں تو ہمارے قوم کے نونہال تباہ و برباد ہو جائیں گے۔

اب اگر ہمارے حکمرانوں کی طرف رخ کرے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ منشیات کے کاروبار اور استعمال میں اکثر سیاستدان اور حکمران بھی جڑے ہیں۔وہ اسی لئے جہاں ہمارے حکمرانوں کو منشیات تیار کرنے والی کمپنییز اور فیکٹریز ( Companies and Factories ) پر پابندی عائد کرنی چاہیے تھی، وہاں ہمارے اعلی افسران دوکاندار حضرات سے نشیلی چیزوں کو فروخت کرنے پر جرمانہ وصول کر رہے ہیں۔

یہاں میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ منشیات کے کاروبار کرنے والوں کے خلاف کاروائی نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ میرا اصل مقصد یہ ہے کہ حکمرانوں کو منشیات تیار کرنے والی کمپنیز اور فیکٹریز پر پابندی عائد کرنی چاہیے۔ تاکہ جب جڑ ختم ہو تو شاخیں خود بخود ختم ہوگی۔

اب آتے ہیں ہمارے سماج کے اس طبقے کی طرف جن میں اکثر لوگ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کا ہر وقت سوچ رہے ہوتے ہیں۔ پھر چاہے کیوں نہ وہ منافع حرام کا ہی ہو اور ہمارا سماج اس منافے سے تباۂ و برباد کیوں نہ ہوتا جا رہا ہو۔

جی ہاں! بات دوکاندار حضرات کی ہو رہی ہے جو منشیات کے کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ چاہے بات سگریٹ کی ہویا تباکو کی دونوں ہی ان کے پاس 24 گھنٹے دستیاب ہوتے ہیں۔ شاید ہمارے دکاندار حضرات اس بات کو بھول چکے ہیں کہ ہمارے پیغمبر جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے منشیات کے کاروبار کرنے والوں پر لعنت کی ہے اور اس کاروبار کو حرام قرار دیا ہے۔

اب آخر میں قوم کے ہر ایک فرد کے ساتھ ساتھ اس طبقے سے بھی میری یہی گزارش رہے گی کہ برائے مہربانی ہوش میں آ کر ان بے ہودہ اور فضول چیزوں کے استعمال اور کاروبار دونوں سے پرہیز کرے، اور باقی لوگوں کو بھی پرہیز کرنے کی تلقین کرے۔ تاکہ ہماری صحت اور اخلاق دونوں ہی منشیات کے مضر اور برے اثرات سے محفوظ رہے۔ اور آنے والے وقت میں دنیا ہمیں صحت مند و بااخلاق اقوام کے ساتھ شمار کرے۔

( دانش احمد )

Discus