Image by Murthy SN from Pixabay 

ہندوستان ایک قدیم ملک ہے .یہ ملک ہزاروں سال پہلے آباد ہوچکا ہے کہا جاتا ہے کہ جب اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ سلام کو جنت سے نکال دیا تھا اور اس سے دنیا پر بھیج دیا تو اس کو سری لنکا و ہندوستان کے درمیان ہی اتارا گیا تھا .اس لءے مسلمانوں کی خاصی تعداد ہندوستان کو آدم علیہ سلام کی پہلی آماجگاہ مانتے ہیں .اور پھر آدم کی نسل بڑھتی گءی اور پوری دنیا میں پھیل گءی .دوسری طرف دنیا کی بیشتر آبادی اسی خطے میں رہتی ہے .اس اعتبار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ملک بہت ہی پرانا تاریخی و اولین ملک ہے.

جس طرح بنی نواع آدم میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں سینکڑوں مزاہب رنگ نسل قوم و قبیلے پاءے جاتے ہیں اسی طرح ہندوستان کی ساخت کچھ ایسی ہے کہ یہاں درجنوں مزاہب کے لوگ درجنوں قومیں رنگ و نسل و مختلف زبانیں بولنے والے لوگ آباد ہیں .

کثیر لسانی multi religious or multi languages و قومی نظریات کے ہوتے ہوءے یہ ملک کسی خاص particular کمنٹی کا ملک نہیں ہوسکتا اسی لءے قوم کے عظیم دانشوروں قانون دانوں مفکروں سیاسی و مزہبی راہنماؤں نے 1947ء کی آزادی ہند کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ انہوں نے اس ملک کو کسی ایک مزہب و قوم کا ملک بنانے کے بجاءے اسے جمہوری ملک democratic country بنادیا . اور جمہوری آئین نافظ کردیا گیا

اور یہی بڑی خوبصورتی ہندستان کی دنیا بھر میں مشہور ہے .کیونکہ اس سے دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت بھی کہتے ہیں .

اور ایسا ہونا بھی ضروری امر تھا کیونکہ اس ملک کی کلہم آبادی میں بیس کروڑ سے زاہد مسلمان کروڑوں سکھ کروڑوں بدھسٹ جین عیساءی آباد ہیں .جہاں ہندووں کی آبادی کثیر ہے وہاں اقلیتوں کی آبای بھی کچھ کم نہیں ہے.اس لءے یہ ملک کسی خاص کمنٹی community کا نہیں کہلایا بلکہ سب کا یکسان ملک ہے

اسی لیے ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں مسلمانوں سکھوں بدھسٹوں سب نے مل کر بیش بہا قربانیاں پیش کرکے اپنے ملک کو فرنگیوں سے آزاد کرایا .

لیکن اب ملک ہندوستان میں سال 2014ء میں rssکی حلیف جماعت بی جے پی کی حکومت برسراقتدار آئ ہے جوہندوستان کا آئین بدلنے میں بہت ہی بے تاب نظرآرہے ہیں اور انہوں نے اقلیتوں کا جینا حرام کردیا ہے

گاہے مسلمانوں کو تنگ طلب کیا جاتا ہے گاہے سکھوں کو چھیڑا جاتا ہے تو گاہے دیگر قوموں کو ستانا شروع کیا گیاہے.جس سے ملک میں بدامنی پھیل رہی ہے اور عالمی سطح پر ہندوستان کی جمہوریت بدنام ہوتی جارہی ہے .اور یہی صورتحال رہی تو حالات بہت ہی نازک ہوسکتے ہیں

جس طرح کہ ہندوستان کی حکومت و ہندو شدت پسند مزہبی جماعتیں ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی دوڑھ دھوپ میں لگی ہوئی ہیں اگر یہ لوگ اس میں کامیاب ہوتے ہیں ملک ہندوستان کو ہندو راشٹر declare کیا جاتا ہے تو یقینی بات ہے کہ ہندوستان میں آباد کروڑوں مسلمانوں ںسکھوں عیسائیوں بدھسٹوں میں ایک negative message جائیے گی وہ لوگ ملک میں اپنے آپ کو کمتر سمجھنے لگیں گے اور انہیں مایوسی بھی ہوسکتی ہے

جب کہ اکثریتی طبقہ آپنے آپ کو مختار کل یعنی اعلی سمجھ بھیٹیں گے جس سے ملک میں موجود مزہبی و قومی توازن balanceبگڑنے کا قوی امکان ہے

اور پھر ملک میں مزہبی رواداری بھائی چارہ داوء پر لگ سکتا ہےیوں ملک میں اتھل پتھل سیاسی و مزہبی رسہ کشی جنم لے سکتی ہے اور ملک کے خرمن امن میں آگ لگ سکتی ہے.جس سے ملک کی بنیادیں دن بہ دن کمزور ہونے کا احتمال ہے اس لئیے ابھی بھی وقت ہے کہ ملک کی سول سوسائیٹیاں دانشور قلم کار صحافی مفکر مدبر سیاسی و مزہبی راہنما آگے آکر ملک کو ہندو راشٹر کے بجائے جمہوری فضاوئوں کو بدستور بحال رکھنے کے لئیے اپنی کوششیں تیز کریں .نیز آنے والے خطرات challangesسے قوم و ملت کو آگاہ کریں اور یہ ہم سب ملکی باشندوں کا بنیادی فرض بھی ہے

اسکے علاوہ ہندوستان میں شامل ریاست جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ تعصب و سختیاں برتنے کے بجائیے انصاف مہیا کریں تاکہ بین الاقوامی سطح پر ہندوستان بدنام نہ انسانی حقوق کشمیر میں بحال کیے جائیں اور عوام کی راحت کے لئیے سیاسی حالات درست بنانے کی کوشش کی جائیے

سیاسی قائیدین کی رہائی عمل میں لائی جائیے

تشدد سے متاثرہ عوام کی مالی و اخلاقی امداد کا سلسلہ شروع کیا جائیے

یتیم بچوں کی تعلیم و تدریس کا بندوبست کیا جائیے

بیواوں کے لئیے مالی مراعات دئیے جائیں .اس طرح لاکھوں کروڑوں کشمیریوں کے ساتھ Healing touch کی پالسی اپنانے کی ضرورت ہے .اگر واقعی ہندوستان ایک ترقی یافتہ ملک پرامن و باشعور بننا چہتا ہے تو ہر قوم و ملت کو انصاف فراہم کرنا نہایت ہی ضروری ہے اسکے بغیر ہندوستان دنیا میں کوئی بھی مقام حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی عالمی شہرت international immageبنا سکتا.بلکہ اسکے لئیے ضروری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے.

قومی و ملی یکجہتی National integrity ملکی واحدانیت قومی و لسانی ہم آہنگی ملکی صلامتی کے لئیے نہایت ہی ضروری ہے اسکے بغیر ایک جمہوری ریاست و مملیکت چلانا آسان نہیں ہوتااور نہ ہی کسی مزہبی ملک میں بھی ان بنیادی اقدامات کے بغیر ترقی ممکن ہے.

بدلتے حالات بدلتی صورتحال و new world order کے پسمنظر میں اب پوری دنیا کے حالات بدلنے جارہے ہیں اور اس لہر میں جس ملک کی بنیادیں جڑیں مظبوط ہونگی جس ملک میں مزہبی گروہی و لسانی ہم آہنگی و جمہوری ادارے آپسمیں تال میل رکھتے ہوں وہی ملک اس عالمی لہر میں ٹکِ سکتا ہے اور اس ملک کی ترقی و بہبودی یقیعنی ہے اور جس ملک میں حالات اتھل پتھل ہوں لوگ آپسمیں دست گریباں ہوں مزہبی لڑائیاں ہونگی نسلی گروہی و سرکاری تشدد ہوگا

تو عالمی دشمن طاقتیں اس ملک کو تقسیم کرنے اور اس ملک کا شیرازہ بکھیرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں بلکہ نئی صدی اس ملک کی ہے جس ملک میں جمہوری حقوق بہتر ہونگے لوگ خوش ہونگے مزہبی آزادی رواداری ہم آہنگی ہوگی لسانی منافرت سے پرہیز ہوگا ایسے ہی ملک واقعی ترقی کرینگے اور دنیا کی قیادت کریں گے اس لئیے ہندوستانی عوام و سرکار اپنے ملک کو تب تک super powerکی دوڑھ میں تصور نہ کریں جب تک نہ کہ سب سے پہلے 26جنوری 1950ء کا آئین جمہوریت کو مکمل بحال نہ کیا جائیے تب تک ہم کسی دوڑھ میں نہیں گنے جاسکتے کونکہ اقوام عالم کی نظریں دستور ہمارے ملک کی صورتحال پر ٹکی ہوئی ہیں .

نام .غازی پرے 

.    .    .

Discus