Image by Pete Linforth from Pixabay 

یوں تو ہر معاشرے کے اندر سماجی نابرابری ,برائیاں, بدعات, تعصب ,تخریب کاری, اناپرستی, و اقربا پرستی کی بدعات موجود ہوتی ہیں. لیکن آج سے 1400سو سال قبل نبی برحق صلی اللہ علیہ وصلم کی آمد کے ساتھ ہی اسلام نے ایک نیا فلسفہ زندگی پیش کیا جس میں ان سب برائیوں سے قطع تعلق و منع فرمایا گیا. اور عملی طور پر ایک نمونہ زندگی ہمارے پیارے آقا صلی اللہ و علیہ وصلم کے پیش کیا.

انکی چمکتی سیرت و حسن سلوک مسلمانون کے لۓ ہی نہیں بلکہ پوری قاہینات کے لئے بہترین اسوہ حسنہ رکھتی ہے.

یعنی 1400 سوسال قبل عربستان و دنیا کے دیگر خطوں میں بچیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا. یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں ہندو عورتوں اپنے شوہروں کے ساتھ ہی درگور کیا جاتا. بیواؤں کو اچھوت سمجھا جاتا تھا

بیواؤں کے ساتھ کوئی شادی کے لیے تیار نہ تھا

ظلم و جبر و استصال کا ماحول تھا.

اس دور میں پیارے آقا صلی اللہ و علیہ وصلم ایک قائد و ایک امید کی کرن بنا کر اللہ تعالی نے معبوث فرمائے .آج اگر ہم مسلمانوں کی تعداد دنیا میں ایک یا ڈیڑھ ارب سے زائد دیکھتے ہیں تو یہ یونہی نہیں بلکہ اسلام کی اچھائیوں اور ہمارے نبی ص کی چمکتی ہوئی سیرت کا نتیجہ ہے. اسلام نےجو سماجی برابری و خواتینوں کی عزت و حقوق کی مثالیں پیش کیں اسی وجہ سے عالم کفرستان کی اندھیری میں رہنے والوں نے جوق در جوق کفر و جہالت چھوڑ کر اسلام کا دامن تھام لیا.

اور یہی وجہ ہے کہ آجکل پوری دنیا میں 57 سے زائد اسلامی ممالک موجود ہیں اور اسکے علاوہ پوری دنیا کے غیر مسلم ملکوں میں بھی کروڑوںو لاکھوں کی تعداد میں مسلمان آباد ہیں .یہ ہمارے دین اسلام کی ہی خوبی ہے کہ جس کو ہر طبقے نے گلے لگایا.

ملک ہندوستان نے 1950 ء میں ایک آئین پیش کیا جس میں equal rights, social rights, fundamental rights کی بات کی اور آج تک اس میں ایمانداری کے ساتھ پورا نہیں کرپاتے. لکین اسلام کا 1400 سال پرانا آہیںن ہے .شاید اسی لئے آجکل ہندوستان میں 20کروڈ سے زائد مسلمان آباد ہیں.

موجودہ دور میں جب مختلف سماج و مختلف معاشروں کو ٹٹولا جائے تو ہر جگہ سماجی برائیاں و بدعات ملتے ہیں. اس کا ایک بڑا وجہ یہ بھی ہے کہ اب لوگوں نے مزہبی تعلقات کو بھلا کر مغربی تہزیب و تعلیم و کلچر کو اپنانا شروع کیا ہے. یاد رہے مغربی کلچر میں فحشیت عریانی جابجا نظرآرہی ہے .

لیکن کیا خوب ہوتا اگر آج بھی قوم و ملت اپنے بچوں کو عصری تعلم کے ساتھ ساتھ دینی و اخلاقی تعلیم سے بھی سرشار کرتے. اس کے لئے الگ سے کوچنگ کرواتے اور اسے ضروری سمجتے تاکہ آنے والی نسلیں سنور جاتی. انکی بہتر نشوونما ہوتی نظم و ضبط کی پابند رہتی.

ہمارے کشمیر کے مسلم معاشرےمیں آجکل برائیوں نے بہت حد تک سمت پکڑ لی ہے .آج جس کشمیر کو ولیوں و ریشیوں کی سرزمین کہا جاتا تھا وہاں آج کل شراب, چرس, نشیلی ادویات افیون و قمار بازی کے چرچے بہت عام ہیں.

اسکے علاوہ اب لڑکیوں پر تیزاب پھینکنے کے واقعات بھی رونما ہورہے ہیں

اس پورے پسمنظر میں اب کشمیر کے تمام ذی حس افراد کو سامنے آکر کویی موثر حکمت عملی مرتب کرنی چہیے تاکہ سماج کو بچایا جا سکے.

کشمیر میں گزشتہ دو دہائیوں سے معاشرے میں بہت حد تک اناپرستی ,اقربا پرستی, سماجی بدعات نشہ وغیرہ پھیل چکا ہے.جس سے زمینی سطح پر اب خوف و ہراس پایا جاتا ہے.

نشہ وہ چیز ہے جو عقل و دماغی صلاحیتوں کو بلکل ہی ختم کردیتا ہے. اور برداشت و صبر کی قوت کو بھی نیست و نابود کردیتا ہے. یہی وجہ ہے کہ نشے میں ملوث افراد شرارتی جھگڑالو ہوتے ہیں جرائم و rape cases میں بہت جلد ملوث ہوجاتے ہیں .اپنے گھر اجاڑنے میں بھی ملوث ہوجاتےہیں.

اس لیے کشمیری نوجوانوں کو ان سب برائیوں خصوصاً نشے سے دور رہنا چہیے. شراب چرس افیون وغیرہ پر تھوکنا بھی نہیں چہیے. کیونکہ ایک تو یہ مزہبی حرام ہے دوسری طرف نوجوانوں کی دماغی صلاحیت کو ختم کربھیٹتا ہے. جس سے کشمیر کا مستقبل تباہ ہوسکتا ہے.

یاد رہے کشمیر ایک لمبے عرصے سے ظالم و جابر قوتوں کے استصال کاشکار رہا ہے لکین اس قوم نے تب survive کیا جب انکے پاس جسمانی و دماغی صلاحیت موجود تھی نشے سے دور تھے اپنےمزہبی تعلیمات پر گامزن تھے آپسی بھاءی چارہ قائم تھا.

تب انہوں نے ڈوگروں افغانوں سکھوں انگریزوں ہندو راجاؤں و رانیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھے.

آب آپ خود ہی اندازہ کرسکتے ہیں کہ آجکل یہ قوم ایک بڑے ملک سے نبرد آزما ہے یہ قوم موجودہ دور میں اپنے سیاسی سماجی و پیدائشی حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد کررہا ہے ایسے میں قوم کے نوجوانوں کے پاس صبر و استقامت کے علاوہ دماغی و جسمانی صلاحیت ہونا ضروری ہے اونوجوان قوم کا مستقبل کہلاتے ہیں

آب جب ان جوانوں کو نشے و سماجی برائیوں کی لت لگے تو آپ اندازہ کرسکتےہیں کہ اس قوم کا مستقبل کیا ہوگا.

اصل میں دشمن قوتیں ایک گہری سازش کے تحت اس قوم کے نوجوانوں کو تباہ کرنے کے لیے اور انہیں اپاءیچ بنا نے کے لئے مختلف حربے و ہتگنڈے آزمائی ہے جس میں یہ بھی شامل ہے کہ کشمیر میں معاشرے کے اندر شراب پہنچانا, چرس, افیون, نشیلی ادویات supply کرنا یہ سب ایک master plan کے تحت ہو رہا ہے.

جس طرح کہ مزاحمتی و میں اسٹریم قیادت زندانوں میں مقید کئے گئے ہیں آرٹیکل 370 توڑا گیا ریاست جموں کشمیر تقسیم کی گئی.

اسی طرح نشیلی ادویات و چیزوں کا فروغ کسی ملک کی قومی پالسی NSA لیول کا حربہ ہوسکتا ہے اس لئے قوم کے جوانوں کو اس آزمائش کی گھڑی میں ان سب براءیوں سے باز رہنا چہیے اور یہ وقت بہت ہی کھٹن ہے.

آجکل کشمیر کے عوام کے پاس کوئی موثر لیڈرشپ بھی موجود نہیں ہے اگر ہے بھی وہ تمام زنداں خانوں میں مقید ہے

امر بالمروف و نہی عن المنکر ,کے لیے آج کل کوءی راہنما کشمیریوں کے پاس موجود نہیں ہے .علماء حضرات اپنی اپنی ڈیڑھ اینچ کی مسجدیں تعمیر کرکے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں لگے ہوئے ہیں. وہ آپسی رسہ کشی مناظرہ بازی مکتبی و گروہی تعصب کو فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں

اس لئے میرے وطن کے غیور مسلم نوجوانو! ہم لوگ محمد بن قاسم رح صلاح الدین ایوبی رح محمود غزنوی جیسے اولعلعزم فاتحین دوسری طرف شیخ العالم شیخ نورالدین الدین نورانی رح حضرت محبوب العالم رح کے الاصل ہیں.

کچھ تو ہمیں اپنے اصلاف کی لاج رکھنی چہیے ان ہستیوں کا نام آج بھی چودھویں رات کی چاند کے مانند چمکتا ہے.

اس لئے آج سے ہی کمر بستہ ہوکر اپنے زندگی میں دشمن کی سازشوں کو شامل نہ کریں.

اپنے مزہبی اصلولوں پر قائم رہتے ہوئے ہم سے سماجی برائیاں دور ہوسکتی ہیں اس لئے اپنے سماج کی بہتر تعمیر کے خاطر کچھ نہ کچھ بہتر و مثبت کرنا چہیے اور اپنے سماج میں پھیلی براءیوں کو ختم کرنے کے لیے ایک زوردار مشن چلانے کی بھی ضرورت آن پڑی ہے

غازی پرے .......کھاگ بڈگام....... رابطہ +91

Discus