Image by Pexels from Pixabay 

ملک ہندوستان عالمی طور پر ایک ایسا ملک عظیم ہے جس کی رونق کسے کے چھپانے سے چھپ نہیں سکتی ہے کیوں کہ یہی وہ واحد ملک ہے جس میں مختلف اور متنوع قسم کے مذاہب اور ان مذاہب کے متفرق پیروکار کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہندوستان کی سرزمین سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس کے کہ اس ہندوستان میں متنوع اور مختلف ۶۳ سے زائدزبانیں بولی جاتی ہے۔اگر اس ملک عظیم کے آئین, دستور اور قانون کی بات کی جائے تو اس ہندوستان کی آئین, دستور اور قانون یہاں پائے جانے والے متفرق اور متنوع تمام مذاہب کے لیے یکساں ہے اس کے مطابق جتنے بھی مذاہب اس سرزمین ہندوستان میں کئی برسوں سے موجود ہیں انہیں اپنے اپنے رسم و رواج اور اصول و ضوابط کے مطابق زندگی گزر بسر کرنے کامکمل طور پر پورا پورا حق ہے۔ اور کوئی بھی ایک مذہب دوسرے مذہب کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتا ہے کیوں کہ یہ قانون کے سراسر خلاف ہے۔

ہمارا پیارا ملک عظیم ہندوستان کئی مذاہب,مختلف رسم و رواج اور متنوع و متفرق زبانوں کی آماجگاہ ہے جس کی وجہ سے آج ہندوستان ترقی کی راہ پر کامزن ہے۔ آئین ہند میں یہ باضابطہ صراحتا لکھا گیاہے کہ کوئی بھی شخص کسی دوسرے کے ذاتی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتاہے اور یہ دستو ر ہند کے خلاف ورزی کرنے کے مدے مقابل ہے۔ اس ملک مین جتنے بھی مختلف مذاہب موجود ہیں چاہے وہ سیکھ, عیسائی, ہندو اوراسلام ہی کیوں ناہو سب مذہب کے پیشواؤں اور پیروکاروں کو عزت بھری نگاہ سے دیکھنے کو یہ عدالت عظمی حکم دیتی ہے اسی لیے تو اس ملک کوڈیموکراٹک اور سیکولر ملک ماناجاتاہے۔ اور جب اس ملک کو ڈیموکراٹک اور سیکولر ملک کہا گیا ہے تو کسی مذہب کو کسی دوسرے مذہب کے خلاف پروپگنڈے اور سازشیں رچنے کی اجازت نہیں اور اگر کوئی کچھ سازش رچی جارہی ہے تو وہ صراحتا قانون او ردستور کے خلاف ہے جو انہیں یہ زیب نہیں دیتاہے۔

یہ ہے ہمارپیارا ملک عظیم ہندوستان اور ا س کے مقاصد۔ او رجب ہندوستانی آئین اس بات کی گواہ ہے کہ تمام ہندوستانی باشندے آپس میں بھائی چارگی سے رہنااور کوئی مصیبت کا باعث نا بنناہے اور دستور ہمیں اس چیز کی تلقین کرتی ہے کہ مساوات, عدل و انصاف قائم کرنا, ظلم وتشدد کو روکنا اوراس سے باز رہنا, آپسی بھائی چارگی برقراررکھنااور مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھنا, مذہبی منافقت نہیں پھیلانا, ذات پات کی بناپر معاملہ بندی نہیں ہونا, سب آزادی کے ساتھ رہنا اور اس ملک کی فلاح و بهبودی کے خاطر سب کو مل جل کر کام تو کرناہی چاہیے کیوں کہ یہ آئین سب کی حق میں کارآمد ہے اور اسی بات کی قانو ن بھی تلقین کرتی ہے۔ ہر ہندوستانی کاماننا ہے کہ ہمارا آئین اور دستور اپنے جگہ پر حق پر ہے مگر اس کے جو محافظین ہیں ان کی سستیاں اور کو تاہیاں مکمل طور پر بھری پڑی ہے۔ کوئی بھی کسی بھی مذہب کے ماننے والے ساتھ ایک پڑا معاملہ ہو جاتا ہے جو مذہب کے نام پر تفریق کر دی جاتی ہے اور اس کو حق نہیں ملتا ہے۔

ہمیں معلوم ہے کے اس ہندوستان میں سکھ، عیسائی، ہندو اور اسلام مختلف مذہب کے ماننے والے پائے جاتے ہیں اور سب اپنے طور طریقے سے عبادت کرتے ہیں اور عبادگاہوں کا انعقاد کرتے ہیں۔ مگر جب عدل وانصاف اور مساوات آئین اور دستور کے مطابق عمل میں نہیں لایا جاتا ہے تب جاکہ احتجاج امڈ کر سامنے دیکھنے کو آتا ہے اور سب لوگ اپنے حق کے لیے آواز حق بلند کرتے ہیں۔میں اب آپ کو کچھ ایسے معاملات سے آگاہ کرنا چاہتاہوں جس پر آپ خود بلا رکاوٹ اپنے دل سے بولنے پر مجبور ہوجائینگے کہ یہ تو میرا خود چشم دیدہ معاملہ ہے اور بجا حق ہے ان کو تو انصاف ملنا ہی چاہیے یہ میں ہندوستانی آئین یا تو دستور کی یا پامالی نہیں کررہاہوں اور ناہی آئین ہند کے وقار کو کوئی ڈھیس پہونچارہاہوں اور ناہی اس کی بے حرمتی کر رہا ہوں بلکہ میں فقط یہ کہنے کی کوشش کررہاہوں کہ اس ملک عظیم کا جو آئین اور دستور ہے اس کے مطابق جتنے بھی متنوع اور مختلف مذہب ہیں سب کو مکمل آزادی کے ساتھ رہنے سہنے،عبادت کرنے اور اپنے کلچر کے مطابق زندگی گزارنے کا مکمل طور پر پورا حق ہے اور اس میں کوئی شک کی گنجائش ہی نہیں۔

آئیے دیکھتے ہیں کچھ اہم اور ضروری معاملات اور مسئلہ جس کو جاننا صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ اس ہندوستان کے ہر ایک فرد پر لازم ہے تو سب سے پہلے میں ذکر کرناچاہتاہوں کہ اس ملک عظیم کی آزادی میں مسلم حکمرانوں کابھی اتناہی حق ہے جتناکہ دیگر قوموں کے حکمرانوں کا حق ہے کیوں کہ یہ ملک فقط ان کی حمایت اور قیادت سے نہیں ہوا ہے بلکہ اس آزادیئے ہند میں مسلمانوں کابھی اتناہی حق ہے تب جاکر ہمارا ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا۔ اور ہمارااورآپ کا سب کا اہم کردار رہاہے۔

ہندوستان کے حالات پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو ہمیں یہ با ت بالکل اچھی طرح عیاں و بیاں ہو جائیگی کہ آج کے دور جدید میں مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے جو اس بات پر دلالت کر تی ہے کہ اس ہندوستان سے مسلمانوں کوباہر نکال دیا جائے۔ مثلا میں یہاں کچھ اہم اور ضرور ی مثالیں پیش کرتاہوں تاکہ آپ کے آنکھو ں کی بھی چادر کھل کرسامنے آئے اور سمجھنے کے لائق ہوجائے۔اب میں اصل مدے پر آتے ہوے کچھ حقائق سے آپ کو روشناس کرناچاہتا ہوں جیسے سب سے پہلے: 

٭ گاؤ کشی کے معاملے میں مسلمانوں تکلف پہونچانے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے ہندوستان کا ماحول خراب ہو اور ہم عدل و انصاف کے دروازے پر دستک دیتے رہے۔٭ پھر کچھ دنوں پہلے لاؤڈ اسپیکرز کا معاملہ پورے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں منظر عام پر رہا جس کی وجہ سے مذہبیات کو ٹھیس پہنچی اور اس کے وقار کے ساتھ کھلواڑ کیا گیاجس کی وجہ سے ہندوستان میں احتجاج کا ماحول برپاہوا اور قانون کی بالادستی کی گئی ساتھ ہی ماحول میں بگاڑ بھی پیداہوا جس کی وجہ سے ہندوستان کا ماحول خراب ہو۔

٭ کرناٹک میں حجاب پر پابندی عائد کردی گئی جس سے حقوق نسواں کے وقار کو تکلیف ہوئی جس کے نتیجے میں ملک بھر میں احتجاج کا منظر دیکھنے کو ملاجس کی وجہ سے ہندوستان کا ماحول خراب ہو۔

٭ عبادت گاہوں کے تقدس کو ٹھیس پہونچائی گئی اور ان مساجد کو مسمار و منہدم کیا گیا جس مسلمانوں کے وقار کو تکلیف ہوئی جس کے نتیجے میں احتجاج کرنے والوں کی تعداد کثیر تعداد میں امڈ کر باہر آئی جس کی وجہ سے ہندوستان کا ماحول خراب ہو۔

٭ کبھی لاؤ جہاد کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ کھلواڑ کیاگیااور ہم عدل و انصاف کے دروازے پر دستک دیتے رہے مگر ہماری فریادوں کو نہیں سناگیاجس کی وجہ سے ہندوستان کا ماحول خراب ہو۔

٭ اور آج کچھ دنوں پہلے محمد جاویدو آفرین فاطمہ کے گھر کو بلڈوزرس سے ڈھادیا گیا یہ بھلا کہاں کا انصاف ہے صاحب؟ جو اپنے حق کے خاطر صدائے حق بلند کرتا ہے اسے قید کردیاجاتاہے تو آخر یہ ہندوستان کا ماحول کیسے خراب نہیں ہوگا۔

٭ پھر سی اے اے اور سی اے بی عمل میں لایا گیا جس کی وجہ سے اس ملک کے ہر مذاہب کے ماننے والوں نے اس کے خلاف ا حتجاج خوب زو ر شور سے کیا اور کئی جگہوں پر کثیر تعداد میں پروٹیسٹ کا حجو م دیکھا گیا جس کی وجہ سے ہندوستان کا ماحول خراب ہو۔

٭ این آر سی عمل میں لایا گیا تاکہ ہندوستانیوں کے حالات کا جائزہ لیاجائے جس کی وجہ سے پروبلم امڈ کر باہر آئی اورجس کی وجہ سے ہندوستان کا ماحول خراب ہو۔

٭ جھارکھنڈ میں محمد تبریز کوقتل کردیا گیا مگر اس کو اپنا حق عدالت عظمی سے نہیں ملا اور حقوق کے تفاضوں کی بالا دستی کی گئی جس کی وجہ سے ہندوستان کا ماحول خراب ہو۔

 ٭ پیغمبر اسلام محمد ﷺ کی شان میں گتاخی کی گئی تو پوراعالم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئی اور ہندوستان کے خلاف مختلف ممالک کے حکمرانوں کے ناراضگی دیکھنے کو ملا جس کی وجہ سے ہندوستان کا ماحول خراب ہواور ہندوستانی قانون, دستور او رآئین کی پامالی ہوئی۔

ان تمام امورپر غورکرتے ہوئے یہ کہا جاسکتاہے کہ یہ تو ہے ہندوستانی آئین اور اس کی محافظین کی کارگزاریاں۔ اور اب آج فی الحال ادیپور میں دردجی کاقتل کردیا گیا جس کی وجہ سے ہندوستان کا ماحول خراب ہو۔یہ سراسر قانون کے خلاف ہے کوئی بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتاہے بلکہ عدالت عظمی ہی کسی بھی معاملے کا فیصلہ کرتی ہے۔

میرے دوستوں! آخر یہ سب ایسا کیوں ہو رہاہے؟ کیا ہندوستان کے محافظین خواب و غفلت کی نیند میں سو رہے ہیں؟ کیاانہیں یہ سب چیزیں زیب دیتی ہے؟ کیا انہیں آئین اور دستور کی حفاظت نہیں کرنی چاہیے؟ کیا ہندوستان کی حالت کو بہتر بنانے میں انہیں محنت سے کام نہیں کرنا چاہیے؟ کیااسکولوں اور کالجوں کی پڑھائی کو اور بہتر بنانے کے خاطر کچھ اقدام عمل میں نہیں لانا چاہیے؟ میرا ہی نہیں بلکہ اکثر لوگو ں کا ماننا ہے کہ جو لوگ حکومت کے تخت پر جلوہ افروز ہیں انہیں ہندوستان کی تمام پہلوؤں پر غور کرنا چاہیں تا کہ ہمارا ملک عظیم او رزیادہ ترقی کی راہ پر کامزن ہو۔ ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھ کر اگر کہا جائے تو ہر کوئی یہی کہیگا کہ ای ہندوستان کے محافظین کی کارگزاریاں کیا ہی خوب ہے اورہندوستان کے محافظین کی کارگزاریاں تو ہمہ وقت بہتر ہی رہی ہے او ر امید قوی ہے کہ ہماری حکومت ہند ہندوستانیوں کے لیے کچھ نا کچھ لائحہ عمل ضرور بنائی گی۔

میرے ہندوستانی معزز دوستوں! میر میں یہ جو مضمون لکھا ہوں اس بات سے میرا متفق ہونا ضروری نہیں کہ حکومت کیا کررہی ہے اورکیانہیں کر رہی ہے بلکہ میرا غرض و غایت اور مقصدیہ نہیں ہے کہ اس حکومت کی خلاف ورزی کی جائے او ر ناہی میرا مطلب ہندوستانی حکمرانوں کی عزت کو ٹھیس پہونچاناہے اور ناہی ان کے حکم کی حکم عدولی کرناہے, ناہی ا ن کے حق میں برائیاں بیان کرنا ہے اور ناہی میرا مقصد ا ن کے اصول و ضوابط کی پامالی کرناہے بلکہ ان کی عزت کرنا تو میرا فرض ہے اور میرا ارادہ فقط اتنا ہے کہ حکومت کی ساتھ ساتھ قوانین, دستور او رآئین کی حفاظت اچھی طرح کی جائے اور اس کی عزت کو لحاظ خاکر رکھا جائے تاکہ تمام باشندگان ہندو امن و آشتی کے ساتھ اس ہندوستان میں زند گی گزارے۔ اور اس بات کا بھی متعاف ہوں کہ آج جو حکومت سکتہ میں ہے وہ بجا اپنے جگہ پر صحیح ہے لیکن انہیں تمام باشند گان ہند کے حقوق کا مکمل طو رپر لحاظ رکھا جائے, ان کی حقوق کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو او رتمام متفرق مذاہب کے لوگ آپس میں مل جل کر اس ہندوستان میں زندگی باآسانی او رامن و سلامتی کے ساتھ گزارے اور امید ہے کہ اس ہندوستان کے محافظین کی کار گزاریں آنے والے وقت میں بھی ہماری کارآمد ثابت ہوگا او ردیش کانام اور بھی روشن ہوگا۔ او رہندوستانیوں کے حق میں صحیح اور معتبر فیصلے لے گی جس سے سب کا خیال او رسب کا وکاس ہوگا۔

ایک مرتبہ اور میں صرحتا یہ کہنا چاہتاہوں کہ میرامقصد نا تو اس حکومت کی خلاف ورزی کرنا ہے او ر ناہی میرا مطلب ہندوستانی حکمرانوں کی عزت کو ٹھیس پہونچاناہے اور ناہی ان کے حکم کی حکم عدولی کرناہے, ناہی ا ن کے حق میں برائیاں بیان کرنا ہے اور ناہی میرا مقصد ا ن کے اصول و ضوابط کی پامالی کرناہے بلکہ ان کی عزت کرنا تو میرا فرض ہے۔ میں ہندوستانی آئین یا تو دستور کی یا پامالی نہیں کررہاہوں اور ناہی آئین ہند کے وقار کو کوئی ڈھیس پہونچارہاہوں اور ناہی اس کی بے حرمتی کر رہا ہوں بلکہ میں فقط یہ کہنے کی کوشش کررہاہوں کہ اس ملک عظیم کا جو آئین اور دستور ہے اس کے مطابق جتنے بھی متنوع اور مختلف مذہب ہیں سب کو مکمل آزادی کے ساتھ رہنے سہنے،عبادت کرنے اور اپنے کلچر کے مطابق زندگی گزارنے کا مکمل طور پر پورا حق ہے اور اس میں کوئی شک کی گنجائش ہی نہیں۔اور وہ کام میں ہر گز نہیں کروں گا جو قانون اور دستو ر کے خلاف ہے اور اس کی حفاظت کے لیے حتی الامکان جتنی کوشش ہوگی میں کروں گا۔

میں اپنی باتوں کو علامہ اقبال کی اس شعری کے ساتھ ختم کرنا چاہتاہوں کہ:

سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں ا س کی یہ گلستاں ہمارا

.    .    .

Discus