کربلا کا ذکر جب ہوتا ہے تب ہمارے ذہنوں میں فقط ایک جنگ کا میدان متصور ہوتا ہے یا جو وہاں گیا ہو اس کے دماغ میں شہیدوں کے روضے آتے ہیں خصوصاً روضہ حضرت امام حسین علیہ السلام اور روضہ حضرت عباس علیہ السلام یا وہ میدان کا منظر نظر آتا ہے ۔محرم کے ایام میں جب کربلا کا ذکر کیا جاتا ہے تو ایک درد بھری کہانی سنائی جاتی ہے ۔جو کہ کربلا کا ایک حصہ ہے نہ کہ پوری کربلا ۔لیکن اسی درد بھری کہانی کو سنا کر اصل مقصد سے دور رکھا جاتا ہے ۔ہر انسان کو چاہیے وہ جو کر رہا ہے پہلے اس کی بنیاد (جڈ ) کو سمجھے ۔اگر کوئی انسان ریاضی (mathematics) پڑھنا چاہتا ہے۔تو اسے پہلے گنتی (Number)سے آشنا کیا جاتا ہے ۔دیرے دیرے وہ بہت کچھ سیکھ لیتا ہے ۔اور وہ پھر اس کام میں بہت ماہر ہو جاتا ہے یہاں تک کہ روز مرہ زندگی میں آنے والے مشکلات کا حل بھی ایجاد کر لیتے ہے ۔یہ سب تبی ممکن ہے جب انسان کو بنیاد (جڈ) کی صحیح جانکاری ہو۔

کربلا کو سمجھے کے لئے انسان کو چاہیے کہ کربلا گی بنیاد کو سمجھے ۔چلیے ہم بھی کربلا کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔کربلا میں جو جنگ امام حسین علیہ السلام اور یزید کے درمیان ہؤی اس کا مقصد کیا تھا ؟ کیا وہ اقتدار کی لڑائی تھی؟ بلا شک نہیں ۔بلک مولا حسین علیہ السلام نے کہا إنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاْءصْلاَحِ فِی أُمَّه جَدِّی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَهُ عَلَیْهِ " میں نانا کے دین کی اصلاح کرنے جا رہا ہوں" یعنی جو اسلام کے نام پر سرعام اسلام کے قوانین کے خلاف ہو رہا تھا اس کے مدد مقابل مولا حسین علیہ السلام کا قیام تھا ۔لہزا کربلا کو فقط جنگ تک ہی محدود نہ رکھے ۔بلکہ کربلا حق شناسی کا نام ہے ۔کربلا مظلوم کی حمایت کا نام ہے ۔کربلا حق پہ جان دیتے کا نام ہے ۔مولا حسین علیہ السلام کا ہر انسان پر احسان ہے چاہے وہ مسلمان ہو یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو ۔امام حسین علیہ السلام نے انسانیت کا درس دیا ہے اور اسی کو اپنی تکا مقصد سمجھا ۔اسی بات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کربلا " ایک تربیت گاہ ہے" جو نا امیدوں کے لیے راہ امید ۔گنہگاروں کے لئے راہ نجات ۔زمین پر پڑے لوگوں کے لئے اٹھنے کا سہارا ۔کربلا ہر انسان کو زندگی کے امتحانات سے لڑنے کا درس دیتا ہے ۔یعنی اگر جملے میں کہا جائے تو" یہ انسان کو اپنے حقیقی محبوب (خدا) سے ملانے کی علامت ہے ۔

کیا کربلا واقعی ایک تربیت گاہ ہے اسی بات کو جاننے کے لیے لئے کربلائی یونورسٹی کا جائزہ لیتے ہے ۔جس طرح ہر یونیورسٹی کی بنیاد کوئی نہ کوئی رکھتا ہے اسی طرح کربلا کی اس یونیورسٹی کی بنیاد بھی رکھی گئی ۔جو بہ ذات خود خداوند متعال نے رکھی ۔لیکن آپ اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ بنیاد رکھنے والا (مالک) خود کام نہیں کرتا بلکہ کسی کنٹریکٹ (contractor) کے ذمہ یہ کام دیتا ہے ۔کربلا کی اس یونیورسٹی کا کام حضرت امام حسین علیہ السلام کے ذمہ خداوند متعال نے دیا تھا جو مولا حسین علیہ السلام نے بہ حسن و خوبی انجام دیا اگر آپ نے یونورسٹی میں پڑھا ہوگا یا پڑھ رہے ہوں گے تو آپ اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے پہلے ایک انسان کو یونیورسٹی کا انٹرنس ٹسٹ ( entrance exam) پاس کرنا پڑتا ہے اگرچہ امتحان میں بہت سارے حصہ لیتے ہیں مگر کچھ طلباء کو ہی داخلہ ملتا ہے جنہوں نے کٹ آف (cutoff) پار کیا ہو۔ ‌ہو بہ ہو اس کربلائی یونیورسٹی میں بھی خصوصیت موجود ہے ۔اس کا کٹ آف ( cut off) خود میں کربلائی فکر پیدا کرنا ہے ۔جس ا نسان میں کربلائی/ حسینی فکر پیدا ہوتی ہے وہی انسان اس کربلائی یونیورسٹی میں داخلہ لے پاتا ہے ۔

آپ اس بات سے بھی آگاہ ہوں گے کہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد ہر طالب علم الگ الگ شعبے میں تعلیم حاصل کرتا ہے جسے شعبہ ریاضی ، شعبہ طبعیات، شعبہ کیمیا وغیرہ عرض یہی ہے کہ بہت سارے شبعے ہیں جن میں یہ طلبا تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان کا روز مرہ کی زندگی میں استعمال (practical) ہوتا ہے ۔کربلا کی اس یونیورسٹی میں بھی بہت سارے شبعے ہیں جیسے شعبہ حضرت امام حسین علیہ السلام، شعبہ حضرت علی اکبر علیہ السلام، شعبہ حضرت علی اصغر علیہ السلام ، حضرت عباس علیہ السلام ، حضرت زینب کبریٰ اور ان کے بھی روز مرہ زندگی میں عملی استعمال ہیں ۔شعبہ امام حسین علیہ السلام بزرگوں کے لئے نمونہ عمل ہیں ۔شعبہ حضرت علی اکبر علیہ السلام جوانوں کے لئے ، شعبہ حضرت علی اصغر علیہ السلام بچوں کے لئے ، شعبہ حضرت عباس شجاعت کا درس دیتا ہے۔ شعبہ جناب زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا عورتوں کو راہ نجات پہ جانے کا درس دیتا ہے اس یونیورسٹی کی ایک یہ عظیم خصوصیت ہے کہ ہر شعبے کی ضرورت روزمرہ زندگی میں ایک انسان کو پڑتی ہیں 

کربلائی یونورسٹی کے کچھ خصوصیات جو نایاب ہیں وہ دنیا کی کسی اور یونیورسٹی میں نہیں پائی جاتی ۔ یہ یونیورسٹی دنیا کے ہر حصے میں یعنی ہر ملک میں پائ جاتی ہے اس میں ایک بار ہی میں لاکھوں افراد داخلہ لے سکتے ہیں اگر چہ عماراتی کوئی یونیورسٹی نہیں مگر جہاں بھی کربلائی فکر پیدا ہوتی ہے وہاں کربلائی یونورسٹی قائم ہو جاتی ہے۔ جس طرح ہر یونیورسٹی میں کچھ امتیازی طلبہ ( students) ہوتے ہیں کربلائی یونورسٹی میں بھی بہت سارے ایسے طلبا ہیں جو آج کے دور میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔جیسے حضرت امام خمینی، حضرت امام خامنہ ای، قاسم سلیمانی، محسن حجی ، جواد نقوی وغیرہ اور یہی وہ انسان ہیں جو آج کے دور میں ہم جیسے کم علم و کم فہم لوگوں کو کربلا جیسی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لئے رہنمائی کرتے ہیں۔

 آخر میں ایسی کربلائی یونورسٹی کے ایک طالب علم کے زندگی کے ایک پہلو سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں جس سے آپ کو یقیناً اعتماد ہو جائے گا کہ اس یونیورسٹی سے بڑ کر کوئی نہیں ہے وہ طالب علم کوئی اور نہیں ۔بلکہ معروف زمانہ امتیازی شخصیت ہے جس کا نام ڈاکٹر مصطفے چمران ہے ۔جب مصطفے چمران اپنی پڑھائی مکمّل کرتے ہیں تو انہے بہت جگہوں سے نوکری کی پیشکش آتی ہے یہاں تک کہ NASA سے بھی جسے دنیا کی ایک عظیم یونیورسٹی مانی جاتی ہے لیکن وہ اسے قبول نہیں کرتے ۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کیوں انہوں نے اس آفر ( offer) کو قبول نہیں کیا ؟ وہ کہتے ہے کہ اگر میں NASAمیں کام کروں گا تو اس کا فائدہ غلط ہاتھوں میں جأے گا ۔یہاں اس بات سے صاف واضح ہوتا ہے کہ ایک انسان تبہی ایک اچھے خاصے پیشکش (offer) کو چھوڑ دیتا ہے جب اس کے پاس اس سے بہتر پیشکش ( offer) ہو ۔مصطفے چمران کے پاس کربلا جیسی یونیورسٹی تھی ( خدا کی رضا) لہزا NASAجیسے یونیورسٹی کی پیشکش ( offer) رد کی ۔اور ساری دنیا کے سامنے کربلائی یونورسٹی کی پہچان عیان کر دی۔

وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں۔       

جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دوکف جو۔

.    .    .

Discus